نسب كا مفہوم
نسب كا لغوى مطلب 'باپ كى طرف منسوب' كرنا ہے-اصطلاحى تعريف يہ ہے :
القرابة وهي الاتصال بين إنسانين بالاشتراك في ولادة قريبة أو بعيدة 5
"اس سے مراد قرابت ہے اور قرابت دو انسانوں كے ما بين پيدائشى تعلق كو كہتے ہيں خواہ وہ تعلق قريب كا ہو يا دور كا -"
جواہر الإكليل ميں ہے كہ نسب كا لفظ 'معين والد كى طرف منسوب ' كرنے پر بولا جاتا ہے- 6
نسب صرف 'باپ' كے لئے
قرآنِ كريم ميں اس بارے ميں صريح حكم آيا ہے :
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَـٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿٥﴾...سورۃ الاحزاب
"اور اللہ نے تمہارے منہ بولے بيٹوں كو تمہارے حقيقى بيٹے نہيں بنايا- يہ تمہارے زبانى دعوے ہيں، اللہ ہى حق بات كہتا او رسيدهے راستے كى طرف رہنمائى كرتا ہے- انہيں ان كے حقيقى باپوں سے ہى منسوب كرو، يہى الله كے نزديك زيادہ انصاف والا طريقہ ہے - اگر تمہيں ان كے باپوں كا علم نہ ہو تو پهر يہ تمہارے دينى بهائى يا تمہارے آزاد كردہ غلام ہيں-"
صحيح بخارى ميں ہے كہ يہ آيت حضرت زيد بن حارثہ كے بارے ميں نازل ہوئى كيونكہ اُنہيں اوائل اسلام ميں نبى كريم كا بيٹا كہا جاتا تها- 7
صحيح بخارى كى ہى ايك او رحديث ميں ہے :
أن أبا حذيفة تبنّٰى سالمًا كما تبنى رسول الله ﷺ زيدًا وكان من تبنى رجلًا في الجاهلية دعاه الناس إليه وورث ميراثه حتى أنزل الله تعالى ﴿ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ﴾ 8
"ابو حذيفہ نے سالم كو اپنا 'لے پالك' بيٹا بنا ركها تهاجيسا كہ نبى كريم ﷺ نے زيد كوبنايا تها- جاہليت كادستوريہ تها كہ جوجس كو اپنا 'لے پالك' بنا ليتا، لوگ اسى كى طرف اسے منسوب كياكرتے، اور اس كو ہى وارث بنايا جاتا حتى كہ اللہ تعالىٰ نے اس آيت كو نازل فرما ديا كہ انہيں ان كے باپوں كے نام سے ہى پكارو-"
نسب ونسل كى اہميت كے پيش نظر قرآنِ كريم ميں اس كے متعلق بعض آيات بهى نازل كى گئى تهيں، بعد ميں آيت ِرجم كى طرح ان كى تلاوت كرنا منسوخ قرار دے ديا گيا-حضرت عبد اللہ بن عباس ايك لمبى حديث ذكر كرتے ہوئے فرماتے ہيں :
إنا كنا نقرأ فيما نقرأ من كتاب الله (أن لا ترغبوا عن آبائكم فإنه كفر بكم أن ترغبوا عن آبائكم)9
" قرآن كريم ميں ہم يہ آيت بهى پڑها كرتے تهے : تم اپنے باپوں سے اپنى نسبت كو ہٹاؤ مت ، جو كوئى اپنے باپ كے علاوہ اپنى نسبت كرے گويا يہ تمہارے كفر كے مترادف ہے-"
درست نسب كى اسلام ميں اہميت اس قدر زيادہ ہے كہ نبى كريم كا فرمان ہے:
(من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام)
"جو شخص علم ركهنے كے باوجود اپنے آپ كو باپ كے علاوہ دوسرے كى طرف منسوب كرے تو ايسے شخص پر جنت حرام ہے-" 10
نبى كريم نے ايك فرمان ميں نسب ميں طعنہ زنى كرنے كو جاہلیت اور دوسرے فرمان ميں كفر كے مترادف قرار ديا ہے - 11
حضرت انس بن مالك سے مروى ہے :
(من ادّعٰى إلى غير أبيه أو انتمٰى إلى غير مواليه فعليه لعنة الله المتتابعة إلى يوم القيامة) 12
"جو شخص باپ كے سوا يا كوئى غلام اپنے آقا كے سوا دوسرے كى طرف اپنے آپ كو منسوب كرے تو اس پر قيامت قائم ہونے تك متواتراللہ كى لعنت برستى رہتى ہے-"
حضرت ابو ہريرہ سے مروى ہے كہ جب لعان كى آيات نازل ہوئيں تو نبى ﷺ نے فرمايا:
(أيما امرأة أدخلتْ على قوم من ليس منهم فليست من الله في شيىٴ ولن يدخلها الله جنته وأيما رجل جحد ولده وهو ينظر إليه احتجب الله منه وفضحه على روٴوس الأولين والآخرين) 13
"جو عورت اپنے خاندان ميں ايسے بچے كو داخل كرے جو ان كا نہيں تو اللہ كے ہاں اس كا كوئى حصہ نہيں اور اللہ اس كو اپنى جنت ميں بهى داخل نہ كرے گا- ايسے ہى جو شخص اپنے بيٹے سے انكار كردے حالانكہ اسے معلوم ہے كہ وہ اس كا بيٹا ہے تو اللہ تعالىٰ روزِ قيامت اس سے پردہ فرمائے گا، اور اگلوں پچھلوں ميں اس كو رسوا كرے گا-"
مندرجہ بالا قرآنى آيات اور احاديث ِنبويہ سے معلوم ہوتاہے كہ اسلام ميں نسب كو بہت زيادہ اہميت دى گئى ہے اور نسب كو غلط يا خلط ملط كرنے كى شديد مذمت پائى جاتى ہے- ان سے يہ بهى پتہ چلتاہے كہ اسلام كى رو سے نسب اور نسل صر ف باپ (i)كے لئے مخصوص ہے اور يہ نسب ماں كى طرف سے نہيں چلتا۔