heelo
Mard kiye leye harm hye back site use karna auran aur haddesh ka study karen.us ka zakir bukari sharif-tarmazi sharif-abou daud mae is ka zakuir hye والے فلاسفہ و اطباء اس سے روكتے ہيں، كيونكہ فرج يعنى قبل كو پھينكے گئے پانى كو جذب كرنے كى صلاحيت حاصل ہے، جس سے مرد كو راحت حاصل ہوتى ہے، ليكن دبر ميں وطئ كرنے سے نہ سارا پانى جذب ہوتا ہے اور نہ ہى مرد كو راحت حاصل ہوتى ہے كيونكہ طبعى امر كى مخالفت ہونے كى بنا پر مكمل پانى كا اخراج ہى نہيں كے علاوہ باقى ہر قسم كا استمتاع مباح قرار ديا، اور وطئ يہ قبل اور دبر دونوں كو شامل ہے. ابن قيم رحمہ اللہ نے دبر ميں وطئ كى حرمت كى كئى ايك وجوہات بيان كي ہيں جن ميں سے چند ايك يہ ہيں: يہ بھى ہے كہ: عورت كو اپنے خاوند سے وطئ كا حق حاصل ہے، اور بيوى سے دبر ميں وطئ كرنے سے بيوى كا يہ حق فوت ہو جاتا ہے، اور اس طرح اس كى خواہش پورى نہيں ہوتى اور نہ ہى مقصد حاصل ہوتا ہے. اور يہ بھى ہے كہ: دبر ميں وطئ كرنا مردوں كے ليے نقصان دہ ہے، اسى طرح عقل و دانش ركھنے والے فلاسفہ و اطباء اس سے روكتے ہيں، كيونكہ فرج يعنى قبل كو پھينكے گئے پانى كو جذب كرنے كى صلاحيت حاصل ہے، جس سے مرد كو راحت حاصل ہوتى ہے، ليكن دبر ميں وطئ كرنے سے نہ سارا پانى جذب ہوتا ہے اور نہ ہى مرد كو راحت حاصل ہوتى ہے كيونكہ طبعى امر كى مخالفت ہونے كى بنا پر مكمل پانى كا اخراج ہى نہيں ہوتا. اور يہ بھى ہے كہ: ايسا كرنا عورت كے ليے بہت مضر اور نقصاندہ ہے، كيونكہ يہ ايسى چيز ہے جو طبعى طور پر بھى انتہائى نفرت كا باعث ہے. اور يہ بھى ہے كہ اس سے غم و پريشانى اور فاعل و مفعول كے ساتھ نفرت پيدا ہوتى ہے. اور يہ بھى ہے كہ يہ چہرے كى سياہى كا باعث بنتا ہے اور سينے كو نور سے دور كر ديتا ہے، اور نور قلبى كو ختم كرنے كا باعث بن كر چہرے پر وحشت طارى كر ديتا ہے اور يہ ايك علامت كى شكل اختيار كر ليتا ہے جسے ادنى سى فہم و فراست ركھنے والا شخص بھى پہچان ليتا ہے. اور يہ بھى ہے كہ: فاعل اور مفعول كے مابين شديد قسم كى نفرت و بغض اور قطع تعلقى كا باعث بنتا ہے. انتہى ديكھيں: زاد المعاد ( 4 / 262 ). آپ كے ليے جائز نہيں كہ خاوند كو ايسا فعل كرنے ديں بلكہ اس عمل سے ركنا واجب ہے، چاہے اس كے نتيجہ ميں آپ كو اپنے ميكہ ہى كيوں نہ جانا پڑے، بلكہ اگر اس كے ليے طلاق كا سہارا بھى لينا پڑے تو كوئى حرج نہيں ہے. خاص كر آپ كے اس خاوند كو جس كے بارہ ميں آپ نے شادى سے قبل كى حالت بيان كى ہے اسے اس برائى اور فحش كام سے روكنا ضرورى ہے، اللہ سبحانہ و تعالى سے عافيت كى دعا ہے، كيونكہ اس كا آپ كے ساتھ اس قبيح اور شنيع عمل جارى ركھنا اور مباح وطئ و جماع پر اكتفاء نہ كرنا اسے دوبارہ فحاشى كى طرف لے جانے كا باعث بن سكتا ہے. اس نے جو عذر بيان كيے ہيں ان كى كوئى قدر و قيمت نہيں ہے، اور پھر اس كے ان عذروں ميں آپ كو دھيان نہيں دينا چاہيے، كيونكہ وہ تو آپ كو اللہ كے غضب اور جہنم كى آگ كى دعوت دے رہا ہے. انسان اپنے آپ كو ہلاك كر كے كسى دوسرے كو راحت نہيں ديتا ـ اگر اس جيسے عمل ميں راحت ہو ـ بلكہ اس ميں تو ايك نہيں بلكہ دونوں كى ہلاكت ہے. اور جب وہ كچھ ايام صحيح راہ اختيار كر چكا ہے تو ہم اميد ركھتے ہيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى اسے اس بلاء سے دور كريگا، اور آپ كو چاہيے كہ آپ ہر طرح سے پختگى كے ساتھ اس عمل سے انكار كريں اور اس ميں كوئى ڈھيل مت برتيں تا كہ وہ آپ كى جانب سے اس حرام كام ميں شريك ہونے سے نا اميد ہو جائے، اور اس سلسلہ ميں اس كى اميد بھى ختم ہو جائے. شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا: اگر كوئى شخص اپنى بيوى كى دبر ميں وطئ كرے تو اس پر كيا واجب ہوتا ہے ؟ اور كيا كسى عالم دين نے اسے مباح بھى قرار ديا ہے ؟ شيخ الاسلام كا جواب تھا: الحمد للہ رب العالمين: سب تعريفات اللہ پروردگار كے ليے ہيں، كتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم ميں بيوى كے ساتھ دبر ميں وطئ كرنا حرام ہے، اور عام مسلمان آئمہ كرام بھى اسى حرمت كے قائل ہيں، جن ميں صحابہ كرام اور تابعين عظام وغيرہ شامل ہيں. كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نےاپنى كتاب عزيز ميں فرمايا ہے: { تمہارى بيوياں تمہارى كھيتياں ہيں تم اپنى كھيتى ميں جہاں سے چاہو آؤ، اور اپنے ليے آگے بھيجو }. اور صحيح حديث ميں ثابت ہے كہ: يہودى كہا كرتے تھے كہ اگر كوئى شخص اپنى بيوى سے دبر كى جانب سے اس كى قبل ميں جماع كرے تو بچہ بھينگا پيدا ہوتا ہے، چنانچہ مسلمانوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كے متعلق دريافت كيا تو اللہ سبحانہ و تعالى نے يہ آيت نازل فرمائى: { تمہارى بيوياں تمہارى كھيتياں ہيں، چنانچہ تم اپنى كھيتى ميں جہاں سے چاہو آؤ اور اپنے ليے آگے بھيجو }. اور حرث يعنى كھيتى وہ جگہ ہے جہاں كاشت كى جائے اور بچہ تو فرج يعنى شرمگاہ ميں كاشت ہوتا ہے نہ كہ دبر ميں اور اثر ميں وارد ہے كہ: دبر ميں وطئ كرنا لواطت صغرى ہے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے: " يقينا اللہ عزوجل حق بيان كرنے سے نہيں شرماتا، تم عورتوں كى دبر ميں وطئ مت كرو " يہاں الحش سے مراد دبر ہے، جو كہ گندگى والى جگہ ہے اور پھر اللہ عزوجل نے حيض كى حالت ميں بيوى سے جماع كرنا حرام قرار ديا ہے حالانكہ يہ گندگى تو اس كى فرج ميں ايك عارضى گندگى ہے، ليكن وہ جگہ جہاں مستقل طور پر بڑى نجاست يعنى پاخانہ ہو اس كے بارہ ميں كيا حكم ہوگا. اور يہ بھى ہے كہ: يہ لواطت كى جنس سے ہے" شيخ الاسلام رحمہ اللہ نے يہان تك كہا ہے: " جس نے اپنى بيوى سے اس كى دبر ميں وطئ كى اسے ايسى سزا دينى چاہيے جو اسے اس كام سے منع كرنے كا باعث بن سكے، اور اگر يہ علم ہو جائے كہ وہ دونوں ايسا كرنے سے باز نہيں آ رہے تو پھر ان دونوں ميں عليحدگى كرانا واجب ہے " واللہ تعالى اعلم " انتہى ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 267 ). جناب مولانا صاحب ميں درج ذيل سوال كا جواب چاہتى ہوں، كيونكہ يہ مجھے بہت پريشان كيے ہوئے ہے، اور ميرے ليے بہت اہم ہے: ميرا خاوند مطالبہ كرتا ہے كہ وہ پيچھے سے آئے ـ يعنى پاخانہ والى جگہ استعمال كرنا چاہتا ہے ـ ليكن ميں اس سے انكار كرتى ہوں، اور وہ مجھے ايسا كرنے پر اس درجہ تك مجبور كرتا ہے كہ ميں رونے لگتى ہوں اور ايسا كرنے سے انكار كرتى ہوں، ليكن وہ مجھے ايسا كرنے پر مجبور كرتا ہے، برائے مہربانى مجھے معلومات فراہم كريرں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے ؟ شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا: عورت سے دبر ميں وطئ كرنا كبيرہ گناہ ہے، حتى كہ اس سلسلہ ميں شديد قسم كى وعيد آئى ہے، يہاں تك كہ اس كے متعلق كفر كى وعيد بھى وارد ہے، اور لعنت كى وعيد بھى ہے اور اسے لواطت صغرى كا نام ديا جاتا ہے. اور اس كى حرمت پر بہت سارے دلائل دلالت كرتے ہيں اور اس سلسلہ ميں جو بعض سلف سے منقول ہے كہ انہوں نے اسے مباح كہا ہے يہ ان كے ذمہ غلط لگايا گيا ہے، جيسا كہ ابن قيم وغيرہ نے زاد المعاد ميں نقل كيا ہے. انہوں نے تو اس سے مراد يہ ليا ہے كہ دبر كى طرف سے فرج ميں جماع كيا جائے، اور يہ جائز ہے كہ انسان اپنى بيوى سے فرج ميں جماع كرے ليكن پچھلى جانب سے، اصل يہ ہے كہ جماع صرف شرمگاہ يعنى قبل ميں ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں. اس ليے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے: { تمہارى بيوياں تمہارى كھيتي ہيں تم اپنى كھيتى ميں جہاں سے چاہو آؤ }البقرۃ ( 223 ). ليكن دبر ميں وطئ نہيں كرنى چاہيے، يہاں ايك مسئلہ ہے: بعض لوگ يہ خيال كرتے ہيں كہ اگر اس نےايسا كيا ـ يعنى اگر اس نے بيوى كى دبر ميں وطئ كى ـ تو نكاح ٹوٹ جاتا ہے، حالانكہ ايسا نہيں، بلكہ نكاح باقى ہے، ليكن اگر وہ اس كے عادى ہو جائيں اور مسلسل ايسا كريں توان كے ماين عليحدگى كرانى واجب ہوگى، يعنى ايسا كام كرنے والے خاوند اور بيوى ميں عليحدگى كرا دى جائيگى. اور عورت كے ليے حكم يہ ہے كہ وہ حسب قدرت و استطاعت اس سے اجتناب كرے، ميرى پہلے تو خاوندوں كو نصيحت ہے كہ وہ اپنے اور اپنے گھر والوں بيوى بچوں كے متعلق اللہ تعالى كا تقوى اختيار كريں اور اپنے آپ كو سزا كا مستحق مت بنائيں. اور پھر ميرى بيويوں كو نصيحت ہے كہ وہ ايسے عمل سے بالكل رك جائيں اور ايسا نہ كرنے ديں چاہے اس كے نتيجہ ميں انہيں خاوند كے گھر سے اپنے ميكہ ہى كيوں نہ جانا پڑے تو ميكے چلى جائے اور وہ خاوند كے پاس مت رہے، اس حالت ميں وہ خاوند كى نافرمان نہيں ہوگى، كيونكہ وہ تو ايك معصيت و نافرمانى سے بھاگى ہے. اور اس حالت ميں بيوى كا اپنے خاوند پر نان و نفقہ ہو گا، اگر وہ اپنے ميكے ايك يا دو ماہ رہتى ہے تو اسے اخراجات مانگنے كا حق حاصل ہے، كيونكہ خاوند كى جانب سے ظلم ہوا ہے؛ اس ليے كہ خاوند كے ليے حلال نہيں كہ وہ اپنى بيوى كو ايسے فحش عمل پر مجبور كرے " انتہى ماخوذ از: اللقاء الشھرى ( 59 / 14 ). اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كے خاوند كو ہدايت عطا فرمائے، اور اسے سيدھى راہ اورحق كى طرف لوٹائے. واللہ اعلم . الاسلام سوال وجواب
|