Hazrat Aayesha RA
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں صرف دو چھوٹی بیٹیاں حضرت امِ کلثوم اور حضرت فاطمہ موجود تھیں اور اس لئے گھر میں کسی ایسی خاتون کی ضرورت تھی جو دونوں صاحبزادیوں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دلجوئی کر سکے۔ ایک رات رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما رہے تھے کہ حالتِ خواب میں حضرت جبرائیل ایک سبز ریشمی کپڑے پر سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کی تصویر لائے اور عرض کیا۔ "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، یہ خاتون اس دنیا اور آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں۔" یہ خواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلسل تین راتوں تک نظر آتا رہا۔ جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ خواب اللہ کی طرف سے ہے اور ضرور پورا ہو گا۔ چنانچہ یہ رشتہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی زوجہ حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ تعالی عنہ کے ذریعے طے ہوا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے چار شادیاں کی تھیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ زینب بنت عامر سے تھیں جن کی کنیت امِ رومان تھی۔ ایک مرتبہ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے امِ رومان کے بارے میں فرمایا تھا۔ "اگر کوئی شخص حورانِ جنت میں سے کسی کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ امِ رومان کو دیکھ لے۔" ایک عالم جانتا ہے کہ حسین و جمیل ماں کی حسین و جمیل بیٹی نے نہ صرف اپنے ظاہری حسن بلکہ باطنی حسن سے تاریخِ اسلام کے صفحات کو اس طرح روشن کیا کہ اس کا ایک ایک لفظ لائقِ فخر اور قابلِ رشک بن گیا۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی عنہم نے پوچھا۔ "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟" فرمایا۔ "عائشہ" ایک دن آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حجرہ مبارک کے باہر کسی سے دھیمی آواز میں گفتگو فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے تو ام المومنین رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا۔ "وہ کون تھے جن سے آپ گفتگو فرما رہے تھے؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، "کیا تم نے انہیں دیکھا؟" حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا، "جی ہاں" رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "تم نے آج خیر کو بہتات کے ساتھ دیکھا۔ وہ جبرائیل تھے۔" پھر تھوڑی دیر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ "عائشہ یہ جبرائیل ہیں۔ تم کو سلام کہہ رہے ہیں۔" سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا۔ "وعلیہ السلام، اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آانے والے کو بہتر صلہ عطا فرمائے۔" حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ وہ واحد ذات تھی جن کی خوشی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہو جاتے تھے اور جن کے غم پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم غمگین ہو جایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ ہی وہ واحد ذات تھی جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر بات بلا ججھک کر لیا کرتی تھیں۔ اور تو اور کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خفا بھی ہو جاتی تھیں لیکن یہ خفگی بھی اظہارِ عقیدت و محبت کا ایک عمدہ نمونہ ہوتی۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ "اے عائشہ، میں جانتا ہوں کہ تم کبھی مجھ سے خوش ہوتی ہو اور کبھی خفا ہوجاتی ہو۔" حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی، "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپ ان دو مختلف کیفیتوں کو کیسے پہچانتے ہیں؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "جب تم خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کی قسم اور جب خفا ہوتی ہو تو کہتی ہو اے ابراہیم کے رب کی قسم۔" سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا، "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ بالکل بجا فرماتے ہیں۔" یہ وہی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ ہیں جنہوں نے ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی، " یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے دعا فرمایئں کہ اللہ مجھے جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجَ مطھرات میں شامل رکھے۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا، "اگر تم چاہتی ہو کہ جنت میں اس مرتبے پر پہنچو تو دنیا میں کل کے لیے کھانا بچا کر نہ رکھو اور کپڑے کو اس وقت تک بیکار نہ سمجھو جب تک اس میں پیوند لگ سکتا ہے۔" دنیا جانتی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے زندگی بھر اس نصیحت پر عمل کیا۔ اللہ تعالی ہم سب کو بھی اس نصیحت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
|